بسم
اللہ الرحمن الرحیم
امة مسلمہ کا زوال
وانحطاط، انتشاروافتراق اور تفرقہ، کس طبقے کی نااھلی، فرض ناشناسی، ناقص ومایوس
کن کارکردگی، لاپرواھی یا مجرمانہ غفلت کا لازمی ومنطقی نتیجہ، تلخ حقائق کا ایک
دردمندانہ و تنقیدی جائزہ۔
تحریر: پرویز اقبال آرائیں، (ریسرچ
اسکالر پی ایچ۔ ڈی)، شعبہ قرآ ن و سنة،
کلیہ معارف اسلامیہ، جامعہ کراچی۔
اللہ رب
العالمین سبحانہ وتعالی نے انسانوں کی ھدایت و راھنمائی کے لئے، اپنے آخری رسول
امام الانبیاء رحمة للعالمین (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) پر نازل کردہ وحی متلوو
(آخری الھامی کتاب ھدایت قرآن مجید) اور وحی غیرمتلوو (سنة رسول اللہ صلی اللہ
علیہ والہ وسلم) پر مبنی جو دین عطا فرمایا، اپنے اس پسندیدہ دین کا نام
"الاسلام" رکھا جوکہ پورے کا پورا منزل من اللہ اور کامل و اکمل ھے۔
اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی نے عالم انسانیت کے لئے اپنی اس عظیم
نعمت، الوھی ھدایت یعنی دین "الاسلام" کی تکمیل کا بالکل واضح، واشگاف اورغیر مبہم اعلان
(خود اپنی آخری الھامی کتاب ھدایت، کلام اللہ یعنی) قرآن مجید میں فرما دیا جب کہ
اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی کے آخری رسول امام الانبیاء رحمة للعالمین حضرت
محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) نے بھی اپنے خطبہء حجة الوداع میں دین
اسلام کے مکمل ھونے کا بالکل واضح، واشگاف اورغیر مبہم اعلان فرمایا دیا۔
اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی نے
اپنے آخری رسول رحمة للعالمین (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی نبوت و رسالت اوراپنی
آخری کتابِ ہدایت قرآنِ مجید پر مبنی (دین "الاسلام") کو قبول کرنے، اس
پرایمان لانے اور اسے اخلاص قلب و صدق نیت کے ساتھ تسلیم کرنے والوں کا نام خود ھی
قرآن مجید میں "مسلمان" رکھ دیا اورعالم انسانیت با لخصوص اھل ایمان
(مسلمانوں) کو اس کا مکلف قرار دے دیا گیا۔
قرآن و سنة پر مبنی اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی کے پسندیدہ الوھی دین
"الاسلام" میں حجیّت (اتھارٹی) صرف قرآن وسنة ہی ہیں، ان دو کے ما سوا
(کسی بھی شخص یا اشخاص، جماعت یا گروہ، اکابر یا اکابرین، فقیہ یا فقہاء ، مجتہد
یا مجتہدین، کسی بھی تصنیف یا تالیف شدہ کتاب یا کتب سمیت) کسی بھی انسانی خیالات و بشری افکار کو دین اسلام میں حجیّت (اتھارٹی) کی حیثیت حاصل نہیں ہے لہذا الوھی ھدایت پر
مشتمل، قرآن و سنة پر مبنی، اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی کے پسندیدہ دین
"الاسلام" میں کسی کمی و بیشی، ردوبدل، ترمیم و تحریف کا کوئی امکان یا
جواز باقی نہیں رھا۔ الله سبحانه و تعالى انبياء ورسل عليهم الصلواة والسلام کے سوا کسی
بھی انسان کو براه راست اوربلا واسطه هدايت عطا نہیں كرتا بلکہ باقی تمام انسانوں کو
اپنے انبياء و رسل علیہم الصلواة والسلام کے توسل و توسط سے ھی ھدایت
دیتا ھے- لہذا حیات رسول اللہ حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و الہ
وسلم) میں مکمل ھو جانی والے دین "الاسلام" پرقائم وکاربند رھنے کی اللہ
رب العالمین سبحانہ وتعالی جسے چاھتا ھے توفیق عطا فرماتا ھے۔
اب جو کوئی بھی شخص، افراد، طبقہ یا گروہ، کتاب اللہ اورسنة
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) کے منافی و ما سواء کسی بھی شخص یا اشخاص،
جماعت یا گروہ، اکابر یا اکابرین، فقیہ یا فقہاء ، مجتہد یا مجتہدین، کسی بھی
تصنیف یا تالیف شدہ کتاب یا کتب یا کسی بھی انسانی خیالات و بشری
افکار کو منزل من اللہ الوھی دین "الاسلام" میں
اتھارتی (حجیت) مانتا ھے، محض"مسلمان" کے علاوہ اپنی کوئی بھی اوردینی
ومذھبی شناخت یا نام (جیسے بریلوی، دیوبندی، مماتی، حیاتی اھل حدیث، سلفی، جماعتی،
تبلیغی، عطاری، طاھری وغیرھم) اپناتا، کہلواتا، رکھتا ھے تو قرآ ن و سنة کی رو سے
اس کے گمراہ ھونے میں کسی بھی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ھے۔
مسلم علماء کرام، مذھبی پیشواؤں و دینی و سیاسی قائدین، قومی راھنماؤں
اورمسلم حکمرانوں کا کام (فرض منصبی) توصرف اخلاص قلب اور صدق نیت کے ساتھ
امربالمعروف و نہی عن المنکر (یعنی قرآن وسنة) پر خود عمل کرنا اور دوسروں سے اس
پر عمل کروانا ھے۔ قرآن وسنة کو اس کے مقصود اصلی اور حقیقی روح کے عین مطابق صحیح
طور پر سمجھنا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) کے اسوة الحسنة کے مطابق
پہلے خود، قرآن وسنة کی پیروی اورکامل اطاعت و اتباع کرنا، پھرنبوی منہاج کے مطابق
اور کسی بھی کمی و بیشی، ملاوٹ اور ردوبدل کے بغیر، قرآن وسنة کی اصل تعلیمات و
مقاصد دین اسلام کو ان کی اصل روح کے عین مطابق دوسرے لوگوں تک پہنچاناھے۔
اپنے ذاتی
نظریات و خیالات کو بالائے طاق رکھ کر، فقط قرآن وسنة کی تدریس وتعلیم، ترویج و
تبلیغ کرنا، مسلم معاشرے کے افراد کو اجتماعی و انفرادی سطح پر قرآن وسنة کی اطاعت
و اتباع اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) کے اسوة الحسنة کی مکمل پیروی
کرنے پر مائل و آمادہ اور قائل و راغب کرنا، مسلم معاشرے کے افراد کی ہر سطح پر
اصلاح کرنا، ان کو ہر قسم کی گمراہی، بے راہ روی اورقرآن وسنة کے احکامات کی
نافرمانی سے روکنا اورممنوعات، فحشاء و منکرات سے باز رکھنا، عام مسلمانوں کو
باعمل و صالح مسلمان اورمعاشرے کا مفید فرد بنانا، قول و فعل کے تضادات، حرص، حوص،
طمع و لالچ، بغض، عناد، کینہ پروری و عداوت،علاقائی، لسانی، گروھی، فرقہ وارانہ
عصبیتوں اور تعصبات و فسادات، سود خوری و حرام کاری، فسق و فجور، بدعات، مذھبی
منافرت، جھوٹ، بد عہدی، دھوکہ دہی ،وعدہ خلافی، نا جائز منافع خوری، غیر اسلامی
رسومات روائج سمیت تمام رزائل اور صغیرہ و کبیرہ گناھوں سے بچتے رھنے کی تلقین و
تاکید کرنا بھی مسلم علماء کرام، مذھبی پیشواؤں و دینی قائدین و راھنماؤں اورمسلم
حکمرانوں کا کام (فرض منصبی) میں شامل ھے۔
ھر ایک سطح
پر قرآن وسنة کے علمی نفاذ اور دین اسلام کے غلبے و سربلندی کی ھر ممکن کوشش کرنا،
امتِ مسلمہ کو (جو کہ جسد واحد کی طرح، امتِ واحدہ ہے) متحد رکھنے اور ہر قسم کے
تفرقے اور انتشار و افتراق، بد امنی، عدم استحکام سے بچانے کی حتی المقدور اور
مخلصانہ جدوجہد کرتے رھنا اور غیر مسلموں پر اسلام کی حقانیت ثابت کر کے احسن
طریقوں سے ان کو دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا بھی مسلم علماء کرام، مذھبی
پیشواؤں و دینی قائدین و راھنماؤں اورمسلم حکمرانوں کی اصل، اولین اور سب سے اھم
ذمہ داری اور فریضہ ھے۔
مگر افسوس کہ
مشاھداتی طور پر درپیش اصل صورتحال، زمینی حقائق کو دیکھیں تو برصغیر کے اکثر و
بیشتر مسلم علماء کرام، مذہبی پیشواؤں و دینی قائدین و مسلمان سیاسی راھنماؤں اور
حکمرانوں کا کردار مایوس کن، اصل ذمہ داریوں اور فرائض منصبی کے تقاضوں کے بالکل
منافی و برعکس نظرآتا ھے۔
بلاشبہ یہ
بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ امة مسلمہ بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں کی موجودہ
صورتحال انتہائی افسوسناک ہے اورامت مسلمہ، مسلم معاشرہ ھر لحاظ و اعتبار سے
تنزلی، انحطاط، بے عملی، تفرقے، بے راہ روی اور تباہ حالی اور مذھبی منافرت انتشار
و افتراق کا شکارنظر آتا ہے۔
امة مسلمہ
کے زوال وانحطاط، مسلم معاشرے میں پھیلی مذھبی منافرت، انتھا پسندی، فسق و فجور،
فساد وتفرقے،انتشاروافتراق، تباہی وبربادی وزبوں حالی، مسلم علماء، دینی قائدین،
مذھبی و سیاسی رھنماؤں، وسلاطین وحکمران طبقے کی نااھلی، فرض ناشناسی، ناقص ومایوس
کن کارکردگی، لاپرواھی اورمجرمانہ غفلت کا لازمی ومنطقی نتیجہ نظر آتا ھے۔
بدقسمتی سے
بعض بلکہ اکثر و بیشتر بے صلاحیت، نام نہاد اورخودساختہ، نااھل، حریص، عاقبت نا
اندیش، مفاد پرست، خودغرض، مسلم علماء، مذھبی پیشواؤں، و سیاسی قائدین، وسلاطین
(حکمرانوں) نے شعوری یا غیر شعوری، دانستہ یا نا دانستہ، ارادی یا غیرارادی طور
پر، اسلام کی اساس قرآن وسنة، ان کے دیئے ھوئے بنیادی اصول الدین اور اصل مقاصد اسلام
کو مسخ، نظرانداز، فراموش اور پس پردہ کردیا ھے، نااھل و نا لائق، ناقص العقل،
مفاد پرست و خود غرض اورمطلبی اکثر و بیشتر نام نہاد اورخودساختہ، نااھل، حریص،
عاقبت نا اندیش، مفاد پرست، خودغرض، مسلم علماء وسلاطین (حکمرانوں) نے اپنی
ضروریات کے مطابق لوگوں کو اپنے اپنے پسندیدہ و خودساختہ فرقوں، نام نہاد مذہبی
گروھوں، سیاسی ودینی جماعتوں، خانقاھوں اورآستانوں، من گھڑت مسالک اورگمراہ کن
نظریات کے پیچھے لگا لیا ھوا ھے۔
امة مسلمہ
کو زوال و انحطاط، مذھبی منافرت، تفرقے، انتشار وافتراق، تباہی وبربادی اور زبوں
حالی میں مبتلا کر دیا ھے۔ فقہاء ومجتہدین کے مابین (اجتہادی مسائل) یعنی فروعات
میں پائے جانے والے فطری اختلاف رائے کو بھی بد نیتی کے ساتھ، اصول الدین اوراساس
اسلام کے طور پرپیش کر کے محل نزاع بنا دیا گیا ھے۔
اکثر و
بیشتر نام نہاد اورخودساختہ، نااھل، حریص، عاقبت نا اندیش، مفاد پرست، خودغرض،
مسلم علماء وسلاطین (حکمرانوں) نے، اتحاد امة کو بھی اپنے اپنے مخصوص نا جائز ذاتی،
سیاسی، سماجی و معاشی اغراض و مقاصد اورمفادات کی بھینٹ چڑھا کر پارہ پارہ کردیا
ھے اور بھی اپنے اپنے مخصوص نا جائز ذاتی، سیاسی، سماجی و معاشی اغراض و مقاصد
اورمفادات کی تکمیل کے لئے اپنے اپنے پسندیدہ و خودساختہ فرقوں، نام نہاد مذہبی
گروھوں، سیاسی ودینی جماعتوں، خانقاھوں اورآستانوں، من پسند مسالک اورگمراہ کن،
خود ساختہ و باطل و ناقص، ضلالت و گمراھی پر مشتمل من گھڑت نظریات و تعلیمات کو
فروغ دینے کے لئے اپنی اپنی تمام ترتوانائیوں اوروسائل کو بروئے کارلا
رھےھیں۔
آج کل، نام نہاد مولوی صاحبان ومذھبی پیشوا، خودساختہ سیاسی رھنما، دینی
قائدین، مسلم علماء حضرات وسلاطین (حکمرانوں) میں سے اکثر و بیشتر(الاما شاءاللہ)
حریص، عاقبت نا اندیش، مفاد پرست، خودغرض، نا لائق، ناقص العقل، نامعقول، عاقبت نا
اندیش، کج فہم، کم ظرف و کم عقل، مفاد پرست و خود غرض اور مطلب پرست اور اپنے اپنے
منصب کے لئے نا اھل ھیں۔،
انہوں نے
کتاب اللہ اورسنة رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پر مبنی اصل دین اسلام کی
الوھی ھدایت، سنہری تعلیمات اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے اسوة الحسنة
کو پس پشت ڈال رکھا ھے اور لوگوں کواس کی طرف بلانے کے بجائے، کمال بے حسی، بے
ضمیری، انتہائی بے رحمی، حد درجہ ھٹ دھرمی ونہایت بے باکی، چالاکی اور ڈھٹائی کے
ساتھ، قرآن و سنة کے منافی، اپنے اپنے نام نہاد اکابرین (بانیان فرقہ، مذھبی گروہ و دینی و سیاسی
جماعت) کے من گھڑت، خود ساختہ و باطل و ناقص، ضلالت و گمراھی پرمشتمل نظریات و
تعلیمات کی دعوت دیتے اور انہی کو دین اسلام بتاتے، پیش کرتے ھیں اور انہی کے فروغ
و پرچار میں مصروف عمل رھتے ھیں۔
مسلم معاشرے کا المیہ نہیں تو اور کیا ھے کہ مساجد، مدارس، دینی مسند و
منبراورمحراب سمیت تمام تر دینی مراکز، مذہبی اداروں اور معاملات پرآجکل، دین
اسلام یعنی قرآن و سنة کی اصل اور بنیادی تعلیمات اصول الدین، سے نابلد و ناواقف،
تفقہہ فی الدین اور تفکروتدبرکی صلاحیت سےعاری ایسے عناصر (نام نہاد مولوی صاحبان
ومذھبی پیشوا، خودساختہ سیاسی رھنما، دینی قائدین، مسلم علماء حضرات، سلاطین و
حکمرانوں نے نے اپنا نا جائز تسلط وغاصبانہ قبضہ جمایا ھواھے جن میں سے اکثر و
بیشتر(الاما شاءاللہ) حریص، عاقبت نا اندیش، مفاد پرست، خودغرض، نا لائق، ناقص
العقل، نامعقول، عاقبت نا اندیش، کج فہم، کم ظرف و کم عقل، مفاد پرست و خود غرض،
مطلب پرست، بے صلاحیت اور اپنے اپنے منصب کے لئے نا اھل ھیں۔
دین اسلام
یعنی قرآن و سنة کی اصل اور بنیادی تعلیمات اصول الدین، سے نابلد و ناواقف، تفقہہ
فی الدین کی صلاحیت سےعاری اایسے ھی عناصرنے، مساجد، مدارس، منبر و محراب سمیت
تمام تر دینی مراکز، مذہبی اداروں اور معاملات پرآجکل اپنی اجارہ داری قائم کر
رکھی ھے جو خود فرقہ پرستی، جماعت پرستی، مسالک پرستی، اکابر پرستی، مقابر پرستی،
شخصیت پرستی، تعصب پرستی، منافرت پسندی جیسی متعدد مفاد پرستانہ و خود غرضانہ
خرافات و بدعات، اختراعات، فسق و فجور و تفریقات اور ضلالت و گمراھی میں مبتلا ھیں
اور انہوں نے قرآن و سنة کی اصل تعلیمات سے نا آشنا، کم تعلیم یافتہ، معصوم و سادہ
لوح مسلمانوں کی اکثریت کو بھی گمراھ کر کے اپنے پیچھے لگا رکھا ھے اوراب
کافی حد تک وہ دین حق الاسلام، صراط مستقیم (قرآن و سنة کے راستے) سے ھٹ چکے ھیں
اور گمراھی کی تاریک راھوں میں بھٹک رھے ھیں انہیں کوئی واضح راستہ دکھائی نہیں
دیتا وہ حیرت زدہ ھو کر سوچتے ھیں کہ مسلمانوں کے متعدد فرقوں، گروھوں، جماعتوں، طبقات،
مسالک وغیرہ میں سے کون حق پر اور صحیح ھے یا کون سا غلط ھے! سب کے سب فرقے، مذھبی
گروہ، دینی جماعتیں، مسالک وغیرھم، بذات خود ھدایت یافتہ ھونے کے دعویدار ھیں او
ایک دوسرے کو گمراہ، کافر، مشرک، بدعتی، جہنمی بتاتے ھیں۔ جب کہ قرآن و سنة کو سب
نے ھی چھوڑ رکھا ھے جو اصل دین اسلام اور صراط مستقیم ھے، ھر کوئی اپنے اپنے ایجاد
کردہ خود ساختہ، من پسند و من گھڑت، بے بنیاد فرقوں، جماعتوں، مسلکوں، نظریات
وغیرھم کوھی حق پر بتاتا ھے اور اسی کی طرف دعوت دیتاھے۔
انتہائی
دکھ کی بات ھے کہ دین اسلام یعنی قرآن و سنة کی اصل اور بنیادی تعلیمات اصول
الدین، سے نابلد و ناواقف، تفقہہ فی الدین کی صلاحیت سےعاری ایسے عناصر، (نام نہاد
مولوی صاحبان ومذھبی پیشوا، خودساختہ سیاسی رھنما، دینی قائدین، مسلم علماء حضرات،
سلاطین و حکمرانوں) نے، جن میں سے اکثر و بیشتر(الاما شاءاللہ) حریص، عاقبت نا اندیش،
مفاد پرست، خودغرض، نا لائق، ناقص العقل، نامعقول، عاقبت نا اندیش، کج فہم، کم ظرف
و کم عقل، مفاد پرست و خود غرض، بے صلاحیت، مطلب پرست اور اپنے اپنے منصب کے لئے
نا اھل ھیں، اسلام کی عظمت کے نشان، مسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی اور وقار کی
علامت، اھم ترین دینی مراکز، مذھبی اداروں اوراسلامی شعائرومعاملات کو اپنی مالی و
مادی منفعت کا ذریعہء معاش، انڈسٹری، پیشہ وارانہ کاروبار، دوکانداری اور بنا رکھا
ھے جس کے نتیجے میں، ان اھم ترین دینی مراکز اور اسلامی اداروں کی تقدیس بری طرح
پامال ھو رھی ھے۔
اب (الاما
شاءاللہ) اکثر و بیشترحریص، عاقبت نا اندیش، مفاد پرست، خودغرض، نا لائق، ناقص
العقل، نامعقول، عاقبت نا اندیش، کج فہم، کم ظرف و کم عقل، مفاد پرست و خود غرض،
بے صلاحیت، مطلب پرست اور اپنے اپنے منصب کے لئے نا اھل او دین اسلام یعنی قرآن و
سنة کی اصل اور بنیادی تعلیمات اصول الدین، سے نابلد و ناواقف، تفقہہ فی الدین کی
صلاحیت سے یکسرعاری عناصر، (نام نہاد مولوی صاحبان ومذھبی پیشواؤں، خودساختہ سیاسی
رھنماؤں، دینی قائدین، مسلم علماء حضرات، سلاطین و حکمرانوں) کے تمام ترمعاشی،
سماجی، سیاسی، اغراض و مقاصد اور ناجائز مفادات، اسی فرقہ پرستی، جماعت پرستی،
مسالک پرستی، اکابر پرستی، مقابر پرستی، شخصیت پرستی، مطلب پرستی، تعصب پرستی جیسی
متعدد مفاد پرستانہ و خود غرضانہ خرافات و بدعات، اختراعات، فسق و فجور و تفریقات
اور قرآن و سنة کے منافی، نام نہاد اکابرین (بانیان فرقہ، مذھبی گروہ و دینی و
سیاسی جماعت) کی من گھڑت، خود ساختہ، باطل و ناقص، ضلالت و گمراھی پرمشتمل نظریات
و تعلیمات کی پیروی اور فروغ کے ساتھ وابستہ اورلازم و ملزوم ھو چکے ھیں۔
اسی لئے اب
وہ قرآن وسنة اور اسوة الحسنة کی پیروی اوراطاعت و اتباع کے بجائے اپنے اپنے فرقوں
اوراکابرین و قائدین وغیرھم کی من گھڑت، خود ساختہ، باطل و ناقص، ضلالت و گمراھی
پرمشتمل نظریات و تعلیمات کی پیروی، اطاعت و اتباع کوھی اصل دین اسلام کہہ کر پیش
کرتے ھیں، لوگوں سے کہتے ھیں کہ ھماری راھمائی کے بغیرقرآن وسنة کو سمجھنے کی کوشش
بھی مت کرنا، اگرایسا کرو گے تو گمراہ ھو جاؤ گے حالاں کہ ھم سب بخوبی جانتے
ھیں کہ اصل صورتحال اور حقیقت اس سے یکسر مختلف ھے۔ اکثر و بیشترحریص، عاقبت نا
اندیش، مفاد پرست، خودغرض، نا لائق، ناقص العقل، نامعقول، عاقبت نا اندیش، کج فہم،
کم ظرف و کم عقل، مفاد پرست و خود غرض، بے صلاحیت، مطلب پرست اور اپنے اپنے منصب
کے لئے نا اھل او دین اسلام یعنی قرآن و سنة کی اصل اور بنیادی تعلیمات اصول
الدین، سے نابلد و ناواقف، تفقہہ فی الدین کی صلاحیت سے یکسرعاری و محروم عناصر،
کتاب اللہ اورسنة رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پرمبنی اصل دین اسلام کی
الوھی ھدایت، سنہری تعلیمات اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے اسوة
الحسنة کو سمجھنے، سمجھانے اور اس کی طرف رجوع کرنے کی کبھی بات نہیں کرتے
جس سے ثابت ھوتا ھے کہ وہ تو خود بھی سب سے بڑھ کر ضلالت و گمراھی کی تاریک راھوں میں بھٹک
رھے ھیں، دوسروں کو صراط مستقیم پر چلنے کی کیا تلقین کریں گے۔ انہیں تو دراصل یہی
ڈر اور خوف لاحق رھتا ھے کہ لوگوں نے اگر ک کہییں خود قرآن مجید وسنة نبوی کو
سمجھنا شروع کر دیا تو ان کو اصل دین اسلام کی تعلیمات کا علم ھو جائے گا حقیقت
لوگوں پر عیاں ھو جائے گی جس سے ان کے ناجائز معاشی، سماجی و سیاسی مفادات (مذھبی
منافرت کے ایجنڈے) کو نقصان پہنچے گا اور کمائی کی انڈسٹری و دوکانداری بند ھونے
کا بھی خطرہ ھو گا۔
ھرایک مسلمان پر لازم ھے کہ وہ سوچے، تفکرو تدبر اور غورکرے، ان اصل اسباب
و عوامل اور محرکات کا بغور جائزہ لینا ضروری ھے کقہ جن کے باعث امت مسلمہ
کوتنزلی، انحطاط، باھمی منافرت، بے عملی، تفرقے، بے راہ روی، تباہ حالی اور انتشار
و افتراق اور زبوں حالی کی موجودہ بد ترین و ابتر صورتحال کا سامنا ہے۔اس حقیقت سے
کسی طور تجاھل و تغافل، رو گردانی اور انحراف نہیں ھو سکتا کہ امة مسلمہ کے زوال و
انحطاط، منافرت، تفرقے، انتشار و افتراق وبربادی و تباہ حالی، مسلم علماء اور
سلاطین (حکمرانوں) کی نااھلی، فرض ناشناسی و مجرمانہ غفلت کا لازمی و منطقی نتیجہ
ھے جنھوں نے کہ اپنے اپنے اصل فرائض منصبی اور ذمہ داریوں کو نبھانے کے بجائے اپنے
اپنے مخصوص ناجائز مفادات کے حصول و تحفظ کو ترجیح دی ھے۔
اللہ رب العالمین کے نازل کردہ کلام اللہ ( آخری کتابِ ہدایت) قرآن مجید،
رحمة للعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنة پر مبنی دین حق ''الاسلام'' کی
تفہیم، تعلیم، تعمیل، تبلیغ اور تنفیذ (امر بالمعروف و نہی عن المنکر) کی مخلصانہ
کوشش کرنے کے بجائے، (الا ما شاء اللہ) اکثر وبیشترعلمائ، خطبائ، ائمہ، مبلغین،
واعظین اور مولوی حضرات، مسلم علماء اور سلاطین (حکمرانوں) نے شعوری یا غیر شعوری،
دانستہ یا نا دانستہ، ارادی یا غیر ارادی طور پراپنے اپنے ذاتی، ناجائز، سیاسی،
سماجی، معاشی، مفادات و اغراض و مقاصد کے حصول و تحفظ کی خاطر اپنے اصل فرائض
منصبی کی انجام دھی سے گریز، روگردانی، انتہائی غیرذمہ دارانہ طرزعمل، فرض ناشناسی
اورمجرمانہ غفلت، مطلب پرستی، مفاد پرستی اور خود غرضی کاشرمناک عملی مظاہرہ کیا
ہے۔
قرآن وسنة
کی تعلیمات اورمقاصدِ دین کے فروغ و غلبے (امر بالمعروف و نہی عن المنکر) کی
مخلصانہ جدو جہد کر نےاور لوگوں کو قرآن وسنة کی پیروی کی تلقین اور وعظ و نصیحت
کرنے کے بجائے، عاقبت نااندیش، نااھل اور گمراہ مولویوں نے کمال مکاری و عیاری کے
ساتھ، اپنے اپنے مذموم مقاصد، خودساختہ فرقوں، من پسند مذھبی گروھوں، سیاسی ودینی
جماعتوں، مسالک اور من گھڑت نظریات وخیالات اورذاتی اغراض وناجائز مفادات کو ترجیح
دی ھے، حتی کہ قرآن و سنت کو من پسند معانی پہنا کران میں تحریف معنوی کے ارتکاب
سے بھی گریز نہیں برتا ھے، حتی کہ قرآن و سنة کو من پسند معانی پہنا کران میں
تحریف معنوی کے ارتکاب سے بھی گریز نہیں برتا ھے۔
امت مسلمہ
جسے کہ امت واحدہ ھی رھنا ضروری تھا،ا ب بد قسمتی سے اس کوایسےمختلف خودساختہ
فرقوں، مسالک، مذھبی مکاتب فکر، دینی جماعتوں اور گروھوں میں بانٹ دیاگیا ھے جو
باھم متنفرھو کرایک دوسرے کے خلاف صف آراء و کمربستہ ھو کرآپس میں برسرپیکاراور
نبرد آزما ھیں، ھرفرقہ خود کو حق پرجب کہ دوسرے کو گمراہ کہتااور سمجھتا ھے۔ ان
میں سے کوئی بھی فرقہ اسلام دشمن باطل و طاغوتی قوتوں (کفار و مشرکین) کے بھی اتنا
خلاف نہیں جتنا کہ وہ اپنے مد مقابل دوسرے فرقے کا مخالف اور دشمن بنا ھوا ھے۔
حالانکہ بعض مسائل فقہیہ میں، ائمہ اربعہ کے مابین جوفقہی اختلافات ھیں وہ تو سب
کے سب فروعات میں ھیں، دین اسلام کے بنیادی اصولوں میں سبھی ائمہ متفق ومتحد ھیں۔
چاروں ائمہ فقہاء اور انکی تقلید کرنے والے پیروکاروں (مقلدین) میں سے کوئی بھی کسی دوسرے
کوگمراہ، کافر، مشرک، فاسق و فاجر نہیں کہتا اور نہ ھی سمجھتاھے۔ائمہ اربعہ کے ما
بین فقہی اختلافات کی وجہ سے امة میںکوئی بھی تفریق یا تقسیم اورٰ پھوٹ نہیں ھے۔
مگرموجودہ مفاد پرستانہ و خود غرضانہ، بے بنیاد فرقہ پرستی نے امت کا تصور ھی ختم
کر ڈالا ھے اور یہ اسلام دشمنوں کی گھناونی سازش ھے۔
بے بنیاد فرقہ پرستی کا تو اب یہ ھوعالم چکا ھے کہ (الاما شاءاللہ)
اکثر و بیشترحریص، عاقبت نا اندیش، مفاد پرست، خودغرض، نا لائق، ناقص العقل،
نامعقول، عاقبت نا اندیش، کج فہم، کم ظرف و کم عقل، مفاد پرست و خود غرض، بے
صلاحیت، مطلب پرست اوراپنے اپنے منصب کے لئے نا اھل او دین اسلام یعنی قرآن و سنة
کی اصل اور بنیادی تعلیمات اصول الدین، سے نابلد و ناواقف، تفقہہ فی الدین کی
صلاحیت سے یکسرعاری عناصر، (نام نہاد مولوی صاحبان ومذھبی پیشوا، خودساختہ سیاسی
رھنما، دینی قائدین، مسلم علماء حضرات، سلاطین و حکمران) اور ان کے پیروکار، اپنے فرقے کی تائید و
حمایت کے لئے اوراسے حق پر ثابت کرنے، دوسرے فرقے کو کافر و مشرک ثابت کرنے کی غرض
سے، انتہائی بے باکی کے ساتھ، قرآن مجید میں تحریف معنوی بھی کرلیتا ھے اور اللہ
سے ذرا نہیں ڈرتا۔ کسی بھی آیت کو جان بوجھ کر اس کے سیاق و سباق اوراصل البیان سے
کاٹ کر بلا تردد من پسند اور من گھڑت معانی و مطالب پہنا دیتا ھے جو کہ اللہ
سبحانہ و تعالی کا مقصود اصلی ھوتے ھیں اور نہ ھی اس کا مطلوب یا مراد ھو سکتے ھیں
بلکہ وہ من پسند معانی صرف اور صرف اس ملا مولوی کا اپنا مقصود و مطلوب اور بد
نیتی پر مبنی ذاتی ایجنڈا ھوتے ھیں۔غور کریں تو قرآن مجید کے تراجم و تفاسیرمیں
پائے جانے والے اکثر فرق واختلافات میں بھی کسی نہ بہت حد تک اسی بے احتیاطی اور
فرقہ پرستانہ سوچ و روش کا عمل دخل ضرور نظر آتا ھے۔
قرون اولی اور قرون وسطی کے مسلمان (صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم،
تابعین و تبع تابعین عظام، ائمہء اربعہ سمیت فقہاء و مجتہدین اورمحدثین کرام رحمة
اللہ تعالی علیہم اجمعین کیا تھے؟ سنی؟، وھابی؟، بریلوی؟، دیوبندی؟، مماتی؟ ،
حیاتی؟، سلفی؟، اھل حدیث؟، عطاری، جماعتی، طاھری، تبلیغی وغیرھم یا صرف مسلمان
اورمؤمن؟، آج ھم کیا ھیں؟کیا صرف مسلمان اور مؤمن یا پھراس کے سوا باقی سب کچھ؟
فرقہ واریت کی دین اسلام میں کوئی گنجائش نہیں، سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی
ھیں، جسد واحد کی طرح، ایک ملت، ایک قوم، ایک جماعت اور فقط ایک امة ھیں۔
تمام فرقے
اکثروبیشتر(الاما شاءاللہ)حریص، عاقبت نا اندیش، مفاد پرست، خودغرض، نا لائق، ناقص
العقل، نامعقول، عاقبت نا اندیش، کج فہم، کم ظرف و کم عقل، مفاد پرست و خود غرض،
بے صلاحیت، مطلب پرست اوراپنے اپنے منصب کے لئے نا اھل او دین اسلام یعنی قرآن و
سنة کی اصل اور بنیادی تعلیمات اصول الدین، سے نابلد و ناواقف، تفقہہ فی الدین کی
صلاحیت سے یکسرعاری عناصر، (نام نہاد مولوی صاحبان ومذھبی پیشواؤں، خودساختہ سیاسی
رھنماؤں، دینی قائدین، مسلم علماء حضرات، سلاطین و حکمرانوں) نے اپنے سیاسی و
معاشی مفادات کے حصول و تحفظ کے لئے خود ایجاد کیے یا بنوائے ھوئے ھیں، جن کے
ذریعے ان عاقبت نا اندیش، مفاد پرست، انا پرست، خود غرض، عاقبت نا اندیش ملاؤں نے
بد نیتی کے ساتھ امة مسلمہ کا شیرازھ بکھیردیاھے اور یہ عیار و مکار عناصراپنے
اپنے من گھڑت برانڈز(فرقے) متعارف کرواتے رھتے ھیں جو کہ بالکل بے بنیاد اور دراصل
ان مولویوںکی انڈسٹری، دوکانیں اورکاروباراور سیاسی ہتھکنڈے اور اسلام کے خلاف
گھنااؤنی سازش ھیں۔ اللہ سبحانہ و تعالی کے دین (الاسلام) میں تو مسلمان ایک ملت
اورامت واحدھ ھیں ان میں اگر کوئی اختلاف ھو بھی جائے تو فیصلے کی غرض سے اللہ
سبحانہ و تعالی کے کلام قرآن مجید اور (سنة رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ
وسلم)کی طرف رجوع کرنے اور انہیں حکم بنانے کی ھدایت کی گئی ھے، اسلام میں تفرقے
کی کسی طور پر بھی ھر گز اجازت نہیں، فرقہ پرستی ،بت پرستی کی طرح حرام ھے اور یہ
کھلی اسلام دشمنی اور اسلام دشمن طاغوتی قوتوں کے ایجنڈے کی تکمیل کے مترادف عمل
ھے۔ اس صورتحال کی موجودگی میں اسلام دشمنوں کو کچھ بھی اور کرنے کی بھلا کیا
ضرورت ھے؟
کوئی بھی شخص اس وقت تک مؤمن اور مسلمان نہیں ھو سکتا جب تک کہ وہ اپنے
والدین، اولاد اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبت، محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ
والہ وسلم) کے ساتھ نہیں رکھتا ھو۔ اب جوبھی کوئی مسلمان ملت اسلامیہ اورامة مسلمہ
کی اس موجودہ زبوں حالی، فرقہ پرستانہ روش پردل گرفتہ ، مضطرب اوربے چین ھو کر،
اصلاح احوال کے لئے فکرمند وکوشاں نہیں ھے بلکہ اس بد ترین صورت حال کے باوجود
مطمئن اورخوش ھے،اسے اپنے ایمان کی صحت پرضرورغورکرنا چاھئے! کیوں کہ قرآن وسنة کے
مطابق، صرف اورصرف اللہ سبحانہ وتعالی کی اطاعت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ
وسلم)کی اطاعت و اتباع، اسوةالحسنہ، کی پیروی کاھرمسلمان پابند(مکلف) ھے۔
اخلاص قلب، صدق نیت، جذبہ صادق کے ساتھ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ
وسلم) کے مقاصد حیات کواپنی زندگی کے مقاصد، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم کی
طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی آرزوؤں کواپنی آرزوئیں بنا لینے، رسول
اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے اسوةالحسنہ اور اصحابہ کرام رضوان اللہ تعالی
علیہم کے نقش قدم پرعمل پیرا ھوکر،دین حق"الاسلام"کودنیا بھرمیں غالب
وسربلند کرنے اورباطل کومغلوب وسرنگوں کرنے کی غرض سے، مخلصانہ جدوجہد کرنے کا نام
"ایمان" ھے جوکہ اللہ سبحانہ وتعالی کواھل ایمان (مسلمانوں) سے مطلوب
ومقصودھے۔ جبکہ فرقہ پرستی (جودراصل فتنہ انگیزی ھے) دین اسلام میں حرام ھے اوریہ فرقہ پرستی
ھی ھے جوکہ مسلمانوں کے ایک امت (امت واحدہ) بننے اور اسلام کے غلبے اور سربلندی کی
راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ھےـ
ذرا غور کریں کہ آجکل فرقہ پرستی، اکابرپرستی، مقابر پرستی، مسلک پرستی،
جماعت پرستی، پیرپرستی کے اسیر لوگوں کا کیا عالم ھے! بدقسمتی سے لوگ اپنے اپنے
فرقوں اور فرقوں کے بانیان و اکابرین کے ساتھ اپنے تعلق کو اور ان کی رضائ و
خوشنودی، محبت و تعظیم، اطاعت و اتباع کو اللہ سبحانہ وتعالی اور رسول اللہ (صلی
اللہ علیہ والہ وسلم) اور قرآن و سنت پر اولیت و فوقیت اور ترجیح دینے لگے ھیں یہی
عمل ایمان کی نفی کے لئے کافی ھے اوراسی سے فرقہ پرستی، اکابرپرستی، مقابر پرستی،
مسلک پرستی، جماعت پرستی وغیرھم کو فروغ حاصل ھوتا اور تقویت ملتی ھے۔
ضرورت اس امر کی ھے کہ ھم اپنے فرقوں کے بانیان واکابرین، مسالک، علمائ،
جماعتوں اور ان کے قائدین، پیروں، بزرگوں وغیرھم پر اللہ سبحانہ وتعالی اور رسول
اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی رضائ و خوشنودی کے حصول اور ان کی محبت وعقیدت،
تعظیم و تکریم، اورقرآن و سنة کے ساتھ اپنے تعلق،اوران کی اطاعت واتباع کوفوقیت
اوراولین ترجیح دیں اوراسے ھی اپنا مطمح نظراور مقصود و مطلوب بنائے رکھیں۔ اسی
طرز فکروعمل سے ان شاٰء اللہ المستعان، امة مسلمہ کے اتحاد و استحکام اور ترقی و
کامیابی اور فلاح دارین کی راہ ھموارھو سکے گی، فرقہ پرستی، اکابرپرستی، مقابر
پرستی، مسلک پرستی، جماعت پرستی، پیرپرستی وغیرھم کے موجودہ منفی رجحان کا خاتمہ
ھو گا، مسلمان ایک بار پھر سے، امة واحدہ بن کر از سر نو اقوام عالم کی امامت،
قیادت و سیادت اور راھنمائی کا مقدس فریضہ سر انجام دینے کے قابل ھو سکیں گے۔
فرقہ پرستی، اکابرپرستی، مقابر پرستی، مسلک پرستی، جماعت پرستی، پیرپرستی
وغیرھم، دین اسلام کے غلبے اوراتحاد امة اور عالم اسلام کی ترقی و استحکام اور امن
و اآشتی کی راہ میں حائل واحدنہیں تو کم از کم سب سے بڑی رکاوٹ ضرورھے اوراس لعنت
و ناسور سے نجات پائے بغیراصلاح احوال کی کوئی بھی دوسری صورت ممکن نظرنہیں آتیـ
کیوں کہ یہی فرقہ پرستی، اکابرپرستی، مقابر پرستی، مسلک پرستی، جماعت پرستی،
پیرپرستی، امة مسلمہ میںمنافرت، انتشار و افتراق کا باعث بنی ھوئی ھے۔
جس طرح لوگوں کو گمراہ کر کے قرآن و سنةکی پیروی سے ھٹادیا گیا اورفرقہ
پرستی، اکابرپرستی، مقابر پرستی، مسلک پرستی، جماعت پرستی، مفاد پرستی پر لگادیا
گیا اسی کا لازمی و منطقی نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ حتی المقدور، اللہ رب العالمین
کے نازل کردہ دین حق "الاسلام"کا حلیہ ھی بگاڑ دیا گیا ھے، امة مسلمہ کو
متعدد فرقوں، مذھبی گروھوں، سیاسی دینی جماعتوں، مسلکوں، ٹولیوں اور ٹکڑیوں میں
تقسیم در تقسیم کر دیا گیا ھے، مسلمانوں کو قرآن و سنة سے کی اطاعت و اتباع سے
متنفر نہیں توکم از کم دورکرنے کی اس گھناؤنی سازش کے پیچھے کہیں نہ کہیں اسلام
دشمنوں کا نادیدہ ہاتھ اور کوئی نہ کوئی عمل دخل تو ضرور ھو سکتاھے۔
چاروں فقہی مکاتب فکر کا معاملہ فرقہ پرستی، اکابرپرستی، مقابر پرستی،
مسلک پرستی، جماعت پرستی، پیرپرستی وغیرھم سے بالکل مختلف ھے کیونکہ وہ تفقہ فی
الدین کے زمرے میں آتے ھیں او ان چاروں کے پیروکارمحض باھمی فقہی آراء اوراجتہاد
کے اختلاف کی بناء پر ایک دوسرے کو گمراہ نہیں سمجھتے۔ اوراصول الدین میں وہ چاروں
متفق و متحد ھیں ان کے مابین صرف بعض اجتہادی مسائل (فروعات) میں اختلاف ھے جوایک
فطری امرھے کیوں کہ اجتہاد انسانی غور و فکر، فہم و فراست، عقل و شعور کا اخذ کردہ
نتیجہ ھوتا ھے
)
کس قدر بد قسمتی اور ستم ظریفی ھے امن و اتحاد، صلاح و فلاح اور مساوات کا
داعی دین اسلام (جس میں کہ تقرقے کی کوئی گنجائش ھی نہیں بلکہ اس کی سخت ترین
ممانعت ھے) آج قرقوں میں بٹ کر رہ گیا ھے، اصل دین اسلام کاآج کوئی پیروکار نظر
نہیں آتا ھر طرف طوفان بد تمیزی برپا ھے فرقہ پرست، اکابرپرست، مقابر پرست، مسلک
پرست، جماعت پرست، مفاد پرست، پیر پرست گروھوں کا راج اور ایک بے ھنگم ھجوم ھے جن
میں سے ھرایک دوسرے گروہ کو گمراہ، بدعتی، جہنمی، کافرو مشرک اور قابل گردن زدنی
سمجھتا ھے، کوئی بھی اپنے دین و مذھب کا نام "اسلام" اوراپنی شناخت مسلمان اختیار و قبول
کرنے اور سننے بتانے کو تیار نہیں، فرقوں کے نام پر ھرایک نے نے اپنی اپنی پسند کے
خودساختہ، من پسند، برانڈیڈ دین ومذاھب ایجاد کر لئے ھیں اوران کا اپنا اپنا الگ
الگ نام رکھ لیا ھے۔ انہی کو سب نے اپنی اپنی علیحدھ علیحدھ پہچان بنا لیا ھوا ھے۔
اب تو نوبت
یہاں تک آ پہنچی ھے ھر کوئی شرم سے نہیں بلکہ فخراور ڈھٹائی کیساتھ بتاتا ھے کہ جی
الحمد للہ میں بریلوی، دیوبندی، مماتی، حیاتی، تبلیغی، عطاری، سلفی، اھلحدیث ھوں،
یہی میرا دین و مذھب ھے اوراسی کو میں اسلام جانتا مانتا ھوں۔ ان کے اس بیان کردہ
دین و مذھب کا نام عموما اسلام نہیں ھوتا بلکہ کسی نہ فرقے کا نام ھوا کرتا ھےـ
اور اس فرقے سے وابستہ لوگ مسلمان کے بجائے اپنا تعارف دیوبندی، بریلوی، اھل حدیث،
سلفی، عطاری، مماتی، حیاتی وغیرہ بتا کر کروانا زیادہ پسند کرنے لگے ھیں۔ یہ زھر
اب افراد امت کی اکثریت کے رگ و پے میں اسقدرسرایت کر چکا ھے کہ اب لوگ دین اسلام
کے ساتھ تعلق اورمسلمان ھونے کے لیئے، فرقوں کے ساتھ وابستگی کو اولین شرط اور
دینی ضرورت او ناگزیر تقاضہ تصور کرنے لگے ھیںـ
اس بدترین صورتحال کی وجہ سے امت مسلمہ اور اصل دین اسلام کو توبلا شک و
بلاشبہ نا قابل تلافی نقصان پہنچا ھے البتہ اورفرقہ پرست، اکابرپرست، مقابر پرست،
مسلک پرست، جماعت پرست، پیر پرست ملا مولویوں کی دکان خوب چل نکلی ھے صدقات،
خیرات، زکواة، عطیات اورفطرانہ و نذرانہ کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے فرقہ پرست،
اکابرپرست، مقابر پرست، مسلک پرست، جماعت پرست، مفاد پرست پیروکاروں اور
عقیدتمندوں کی فوج ظفر موج بھی ان کے لیئے ایک بڑا اثاثہ اورفائدہ مند چیزھے اسی
زینے پر چڑھ کر وہ دولت، شہرت، عزت کے ساتھ ساتھ سیاسی و حکومتی مناصب، دنیا بھر
کی سیر و تفریح اور عیش و عشرت کی زندگی سے خوب لطف اندوز ھو رھے ھیں باقی رھی
آخرت تو اس کی فکرکرنا عام لوگوں کا مسئلہ ھے فرقہ پرست، اکابرپرست، مقابرپرست،
مسلک پرست، جماعت پرست اکابرین کو اس کی کوئی فکر نہیں شائد ان کا خیال ھے کہ
(معاذ اللہ) آخرت میں بھی وہ کوئی نہ کوئی چکر چلانے میں کامیاب ھوجائیں گے مگر
ایسا ممکن نہیں۔
کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ھے کہ مدارس عربیہ، دینیہ و اسلامیہ کا انتظام و
انصرام کن لوگوں کے ہاتھوں میں ھے، ان مدارس عربیہ، دینیہ و اسلامیہ کا نصاب کیا
ھے، وہاں کا ماحول کیسا ہے ،کس طرح کی تعلیم و تربیت دی جاتی ھے ، قرآن و سنت کی
یا پھر اپنے اپنے فرقہ وارانہ نظریات کی، و ہاں پر داخلہ حاصل کرنے اور والے کون
ھوتے ھیں، کہاں سے آتے ھیں، اسکول کے بجائے ان مدارس عربیہ، دینیہ و اسلامیہ میںکس
بناء پر اور کیوں داخلہ لیتے ھیں، کیا یہ ان کی اولین ترجیح ھوتی ھے یا پھر کوئی معاشی
اور مجبوری، حصول علم دین اور خدمت دین کے جذبے سے سرشار ھو کر ذوق و شوق کے ساتھ
یا کسی اور وجہ یا مجبوری کے تحت وہ ان مفت تعلیم، خوراک، لباس، رھائش، علاج و
معالجہ کی سہولیات دینے والے مدارس کا رخ کرتے ھیں، ان کی سماجی، معاشی، معاشرتی،
جسمانی، نفسیاتی و ذہنی صحت ،حالت و حیثیت و صلاحیت اور قابلیت کیا اورکیسی ھوتی
ھے، مدرسے میں ان کو کس صورتحال کا سامنا رہتا ھے، وہ معاشرے کے کس قدر پسماندہ
طبقے سے تعلق رکھتے ھیں، کیسے ماحول میں رہ کر اور کیا سیکھتے ھیں، ان کا مقصد اور
نصب العین کیا ھوتا ھے؟؟؟
ان جیسے متعدد اور متعلقہ سوالات کے جوابات تلاش کرنا ضروری ھے۔ کیوں کہ
انہی کے نتائج سے ہی یہ معلوم ہو سکے گا کہ ان نام نہاد علماء سے حق گوئی و بے
باکی، اعلائے ، کلمة الحق، اصول پرستی، تقوی و قول و عمل میں مطابقت، دین کی بے
لوث اور سچی خدمت، قرآن و سنة کی تعلیمات، تقوی اور دینداری اور دیانت داری و فرض
شناسی، اسلام کے غلبے اور سر بلندیاور اتحاد امت کے جذبے کی توقع عبث و بے کار اور
بے سود کیوں ہے۔
معاشرے کے متوسط و معززطبقے سے تعلق رکھنے والے وضع دار اور صاحب حیثیت
لوگوں اور حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ ایسی اسلامی جامعات قائم کریں جن کا ماحول و
سہو لیات اور معیار تعلیم کسی طرح بھی نیچرل سائنسز اورسوشل سائنسز کی نامور
سرکاری و نجی جامعات سے کسی طور کم نہ ھواور جن میں تقوی اوراسوة الحسنہ کے مطابق
بہتریں دینی تربیت کا بھی بھرپور انتظام ھو، پڑھایا جانیوالا نصاب بھی عصری و ملی
تقاضوں سے ھم آھنگ ھو، جس سے عربی و اسلامی علوم و فنوں اور متعلقہ علوم و فنون
میں کامل مہارت کو یقینی بنایا جا سکے اور ان کے ساتھ ساتھ جدید و مروجہ عصری علوم
سے بھی ضروری حد تک ھر طالبعلم کو روشناس کرایا جا سکے، تاکہ ان میں معاشرے کے وضع
دار اور صاحب حیثیت خاندانوں، متوسط و معززطبقات سے تعلق رکھنے والے ذھین، قابل و
لائق، جسمانی و ذھنی طور پر مکمل صحتمند، عمدہ، مثبت و تعمیری صلاحیت، اخلاقی جراء
ت، خودی و خود داری،مضبوط قوت ارادی، مستقل مزاجی، استقامت اور حق بات کہنے کی ھمت
و حوصلہ کے حامل، خوبصورت و خوب سیرت بچے ذوق و شوق کے ساتھ میرٹ پر داخلھ حاصل
کرنے میں فخر محسوس کریں اوراس جانب متوجہ ھو سکیں جومسلم معاشرے کی اھم ضرورت ھے۔
صحیح اسلامی اسکالر(عالم دین) مبلغ اسلام،
مصلح اورمعاشرے کا ایک ذمہ دارصالح فرد، مفید و فعال شہری بننے کے ساتھ ساتھ ان
طلبہ کوڈاکٹر، انجینیئر، آفیسر، تاجر،
سی۔ایس۔ایس اور آئی۔ایس۔ایس۔بی سمیت مقابلے کے تمام امتحانات پاس کر
کے اعلی فوجی و سول آفیسربننے کے بھی مساوی مواقع حاصل ھو سکیں۔
دوسری طرف یہ بھی ضروری ھے کہ عربی زبان
لازمی کی جو تعلیم، 1982 سے، چھٹی تا آٹھویں جماعت تک کے تمام مسلمان پاکستانی طلبہ
کو دی جا رھی ھے اس کی با مقصد اور مؤثر تدریس و تعلیم کو یقینی بنایا جائے اور اس
کو بتدریج و مرحلہ وارگریجوایشن کلاسز تک لازمی قرار دے دیا جائے تاکھ کم از کم
تعلیمیافتہ مسلمان پاکستانی تو کتاب ھدایت
قرآن مجید کو اور صلات (نماز) کو سمجھ کر پڑھ سکیں اور پڑھ کرسمجھ سکیں
کیوںکہ نزول قرآن اور فرضیت صلات کے اصل مقاصد اس کے بغیر حاصل ھونا ممکن ھی نہیں
ھیں۔
جب معاشرے میں ایسے اسلامی اسکالرز (علماء دین) مناسب تعداد میں موجود او
اخلاص قلبی و صدق نیت کے ساتھ محض اللہ سبحانہ و تعالی کی رضاء و خوشنودی اور
معرفت کے حصول کی غرض سے بے لوث ھو کر اعلائے کلمة الحق کے لئے سر گرم عمل ھو
جائیں گے تو پھر مسلم معاشرے میں اصلاح بھی ھو سکے گی، اسے امن و انصاف، مساوات
اور فلاح حاصل ھو گی ، نااہل اور عاقبت نا اندیش مفادات کے اسیر نام نہاد مولویوں
کی اجارہ داری اور فرقہ پرستی سے نجات حاصل ھو گی، اتحاد امت اور دین اسلام کے
غلبے و سربلندی کی راہ ھموار ھو سکے گی
فرقہ پرست، اکابرپرست، مقابر پرست، مسلک پرست، جماعت پرست، مفاد پرست
مولویوں کے سدھرنے کا تو بظاھر کوئی امکان نظر نہیں آتا البتہ عام مسلمانوں
بالخصوص تعلیمیافتہ طبقے اور نوجوان نسل کو ضرور سوچنا چاھیئے اور ان فرقہ پرست،
اکابرپرست، مقابر پرست، مسلک پرست، جماعت پرست ملاؤں مولویوں کے پیچھے لگنے کے
بجائے خود آگے بڑھ کر قرآن مجید اور سنة رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی تعلیمات
کوسمجھنے کی کوشش اور اس کی اطاعت و اتباع کرنی چاھئے اور فرقہ پرست، اکابرپرست،
مقابر پرست، مسلک پرست، جماعت پرست، پیر پرست مولویوں کی حوصلہ افزائی کے بجائے ھر
سطح پر حوصلہ شکنی کرنی چاھئے اور اپنی تمام تر محبت و عقیدت اور وفاداری کا مرکز
و محور، اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی، امام الانبیاء رحمة للعالمین حضرت محمد
مصطفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو بنانا چاھئے اوریھی ایمان کا اولین
تقاضہ بھی ھے
خوب جان لو کہ قرآن و سنة سے سند، دلیل، ثبوت، تصدیق کے بغیر کسی کی بھی
اپنی خودساختہ، خود غرضانہ، بناوٹی اورمفاد پرستانہ باتوں، خود ساختہ نظریات کا
اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی کے پسندیدہ دین، "الاسلام" یعنی قرآن و
سنة رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پر مبنی دین حق "الاسلام" سے
کوئی تعلق یا واسطہ اور سروکار نہیں ھے۔
اللہ رب
العالمین سبحانہ وتعالی رحمن و رحیم اپنے خاص فضل وکرم اور رحمت سے ھمیں ہمیں،
طاقت اور توفیق عطا فرمائے کہ ھم اخلاص قلبی اور صدق نیت کے ساتھ قرآن مجید اور
سنة رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو صحیح طرح پڑھ و سمجھ سکیں، ھمیں قرآن و
سنة کا صحیح اوردرست علم و فھم، ان کے حقیقی معارف ومعانی، احکام و پیغام، امر و
نہی، مقاصد اصلی کا صحیح شعور و ادراک اور معرفت حاصل ھو جائے، اللہ رب العالمین
سبحانہ وتعالی ھمیں ھمت، طاقت اور توفیق عطا فرمائے کہ ھم ذوق و شوق کے ساتھ قرآن
و سنة کی مکمل اور کماحقہ تفھیم، اطاعت و اتباع، تعمیل و تبلیغ، تنفیذ، غلبے
اورسربلندی کے لئے ایسی بامقصد اورمخلصانہ جد و جہد کر سکیں کہ جواللہ رب العالمین
سبحانہ وتعالی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کومقصود و مطلوب ھے، اللهم آمین ويا ارحم الراحمين بحرمة و ببرکة و بوسیلة رحمة للعالمين صلى
الله عليه وعلى اله الطيبين وأهل بيته الطاهرين وأزواجه الطاهرات أمهات المؤمنين
وأصحابه الابرارالكرام الطيبين أجمعين وملا ئكة المقربين وسائرعباد الله الصالحين
وبارك وسلم